طارق بن زیاد بَربَر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بنو امیہ کے جرنیل تھے، جنہوں نے ۷۱۱ء میں اسپین میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں سپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اُموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے، جنہوں نے سپین میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق بن زیاد کو سپین پر چڑھائی کا حکم دیا۔طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا اور یہاں دینِ اسلام کاعَلم بلند کیا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پراسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی تھی،جو ایک ماہرِ حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔اسی لیے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلدہی شہرت حاصل کرلی۔ ہرطرف اُن کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔طارق بن زیاد نہ صرف دُنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بلکہ وہ متقی، فرض شناس اور بلند ہمت انسان بھی تھے۔ اُن کے حُسنِ اَخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقا کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوت سے خطرہ لاحق تھا،جب کہ اندلس کے عوام کا مطالبہ بھی تھا۔اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار فوج دے کر اُنہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ ۳۰ اپریل ۷۱۱ء کواسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے ،جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا۔طارق بن زیاد نے جنگ کے لئے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اور فرمایا کہ ہمارے سامنے دشمن اور پیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اُنہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بد دل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دیں یا اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردیں۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ ۷ ہزار کے مختصراسلامی لشکر نے پیش قدمی کی اور عیسائی حاکم کے ایک لاکھ کے لشکر کاسامناکیا،گھمسان کا رَن پڑا، آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اورشہنشاہ راڈرک ماراگیا،بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلا تھا ،جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔فتح کے بعد طارق بن زیاد نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کرلیا۔ طارق بن زیاد کو ہسپانیہ کا گورنر بنادیا گیا۔ طارق بن زیاد کی کامیابی کی خبر سُن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اورخود طارق بن زیاد سے آملے۔ دونوں نے مل کر مزید کئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوالیا اور یوں طارق بن زیاد کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دنیا کے اس عظیم فاتح نے ۷۲۰ء  میں وفات پائی ۔

سورج کی کرنیں دن بھر سفر کرنے کے بعد تھک کر سمٹنے لگی تھی اور شام کے سائے اپنے پر پھیلانے لگے تھے ۔

شمعیں  جلنے لگی تھی اور پرندے دن بھر اڑنے اور دانہ چگنے کے بعد اپنے اپنے مسکن کی طرف لوٹ رہے تھے۔

شام کے اس سائے میں دو سائے طنجہ  شہر کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ان کے قدم کبھی تیزی اور کبھی آہستہ آہستہ اُٹھ رہے تھے۔ شکل سے یہ دونوں راہب لگتے تھے ۔چلتے چلتے یہ لوگ طنجہ شہر جانے والے راستے پر پہنچ گئے ۔وہاں ان کی ملاقات چوکی پر موجود سپاہیوں سے ہوئی ۔ان دونوں نے سپاہیوں  کو سلام کیا اور کہا کہ وہ والیء طنجہ طارق بن زیاد سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں  ۔سپاہیوں  نے ملاقات  کی وجہ پوچھی جو ان راہبوں نے بتا دی۔

ان میں  سے ایک سپاہی ان لوگوں کے ساتھ ہو لیا ۔اور وہ شہر کی طرف روانہ ہو گئے ۔مغرب  کا وقت تھا جب یہ لوگ 

شہر پہنچ گئے اور شہر کی جامع مسجد کے باہر جا کر کھڑے ہو گئے ۔تھوڑی دیر کے بعد  مسجد سے طارق بن زیاد اور ظریف بن مالک نماز پڑھ کر باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک سپاہی کے ساتھ دو راہب کھڑے  ہیں ۔انہوں نے سلام کیا تو سپاہی نے کہا کہ یہ دونوں راہب آپ سے ملنا چاہتے تھے ۔تو میں ان کو اپنے ساتھ یہاں لے آیا۔ طارق بن زیاد نے راہبوں کو ملاقات کی وجہ پوچھی تو ان میں  سے ایک راہب جس کا نام کونٹ جولین تھا نے کہا کہ ہم الویرا کے علاقہ سے آئے ہیں  اور وہ علاقہ آپ کی عملداری میں  آتا ہے ہمارے چرچ کی راہبہ جس کا نام لوسیہ ہے کو ہسپانیہ کے ایک شخص اٹھا کر لے گیا ہے اور وہ طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا ہے ہم شکایت لے کر وہاں کے حاکم کے پاس گئے ۔مگر اس نے ہماری فریاد نہیں سنی اس کے بعد ہم آپ کے پاس آئے ہیں ۔

طارق نے کہا اب آپ لوگ کیا چاہتے ہو تو راہب نے کہا کہ ہماری راہبہ کو ہمیں واپس دلوایا جائے۔ 

طارق بن زیاد نے راہب کی روداد سنی ۔اور ظریف بن مالک سے مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے ۔دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کو موسٰی بن نصیر کے پاس بھیج دیا جائے ۔اور وہاں سے جو فرمان آئے گا ہم لوگ اس پر عمل کریں گے ۔ چناچہ دونوں راہبوں کو موسٰی بن نصیر کے پاس بھیج  دیا گیا اور ساتھ ان کی ساری روداد لکھ کر بھی  بھیج  دی گئی ۔موسی کے پاس پہنچ کر انہوں نے طارق کا لکھا ہوا مراسلہ پیش کیا۔موسی نے مراسلہ کھول کر پڑھا اور راہبوں سے ہم کلام ہوا۔  کیا حاکم وقت کو اس وحشیانہ واقعہ کی اطلاع نہیں ہوئی؟ 

راہب نے کہا سب کو خبر ہے اور سب کو ہی نہایت رنج وقلق ہے- موسیٰ نے کہا پهر ایسے ابو الہوس اور بدکار بادشاہ کو معزول یا قتل کیوں نہیں کر دیتے؟ 

راہب : اس لیے کہ سب اس سے ڈرتے ہیں.

موسیٰ:اچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ 

جولین: صرف یہ کہ آپ اس ظالم سے میرا انتقام لیں-

جولین:آپ ایک مظلوم کی حمایت میں تلوار بلند کر رہے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا معقول وجہ ہو گی-

موسیٰ: یہ تمہارا آپس کا مسئلہ ہے خود ہی طے کر لو

جولین: اگر ہم طے کر سکتے تو تمہارا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے

راہب: مسلمانوں کا قول ہے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرنا اور مظلوموں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-

موسیٰ: بے شک

راہب:جو بے عزتی جولین کی کی گئی ہے اس سے کیا وہ مظلوم نہیں سمجھے جاتے؟ 

موسیٰ: بےشک

راہب: اور راڈرک؟

موسیٰ: ظالم ہے

راہب : پهر کیا آپ کا یہ فرض نہیں بن جاتا کہ مظلوم کی حمایت کریں اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائیں؟ 

موسی: بےشک میرا یہ فرض ہو جاتا ہے-

راہب: تو اللہ کے لیے آپ مظلوم کی حمایت کیجئے اور ظالم کو سزا دیجئے- میں شرافت تہزیب اور انسانیت کے نام پر آپ سے اپیل کرتا ہوں-

جولین: اگر آپ نے ہماری امداد نہ کی اور میں اس بدکار و جفا کار سے اپنا انتقام نہ لے سکا تو میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قسم کھاتا ہوں کہ سمندر میں ڈوب کر مروں گا اور میرا خون آپ کی گردن پر ہو گا-

موسی یہ سن کر گھبرا گیا اور انہوں نے جلدی سے کہا-

میں ان شاءالله تمہاری مدد کروں گا لیکن!

راہب:لیکن کیا؟ 

موسیٰ:میں محض ایک وائسرائے ہوں، خلیفہ کا ماتحت، میں خود مختار نہیں ہوں، اگر تم پسند کرو تو میں تمام واقعات لکھ کر اعلی حضرت خلیفہ کے حضور میں ارسال کر کے ان سے لشکر کشی کی اجازت حاصل کر لوں-

راہب:نہایت مناسب رائے ہے آپ کی-

موسی:اچھا تو میں ابھی لکھتا ہوں

موسی نے اسی وقت ایک عرض داشت لکھی اور اپنے ایک معتمد آدمی کو دے کر خلیفہ کی خدمت میں ارسال کر دی-

کونٹ جولین اور راہب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لے کر رخصت ہو گئے-

ان کے جاتے ہی موسیٰ اور عبد العزیز اٹھ کر چلے گئے-

ان کے جاتے ہی لوگ جوق در جوق اٹھ کر روانہ ہوگئے

عجیب خواب

ہر مسلمان، وائسرائے موسیٰ اور دوسرے اراکین سلطنت خوب جانتے تھے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک جس قدر رحم دل فیاض اور سخی ہے، اسی قدر یہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کے ہمسایہ بادشاہوں اور تاج داروں میں ناچاقی نہ ہو- تمام ممالک میں امن امان قائم رہے-

جس زمانے میں بلاد مغرب کے وائسرائے موسیٰ بن نصیر تھے- اسی زمانے میں بلاد مشرق کے وائسرائے حجاج بن یوسف ثقفی تھے- یہ عراق میں رہنے والے تھے اور موسی افریقہ میں-

موسیٰ کو معلوم تھا کہ ہندوستان کے چند خود سر راجاؤں نے جزیرہ سراندیپ (سریلنکا) سے آنے والے مسلمانوں کو قید کر لیا ہے اور حجاج بن یوسف نے خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت لی ہے- موسیٰ کا خیال تھا کہ خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت دے دیں گے کہ وہاں مسلمان قید تھے مگر اندلس پر یورش کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ وہاں مسلمانوں کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ آپس میں عیسائیوں میں مناقشات تھے-

تاہم انہیں کچھ امید ضرور تھی اور وہ اسی امید پر ہی انہوں نے تیاریاں شروع کر دیں تھیں- افریقہ سے اندلس جاتے ہوئے راستے میں سمندر کو بغیر جہازوں کے عبور کرنا ممکن نہیں تھا-

بحیرہ روم نے افریقہ کو اندلس سے بالکل جدا کر دیا تھا اور مسلمانوں نے اس وقت سمندر میں جہاز رانی نہیں کی تھی  جب کہ اندلس پر چڑھائی کا ارادہ تھا تو یہ ضروری ہو گیا تھا کہ جہاز تیار کروائے جائیں تاکہ بحیرہ روم کو عبور کیا جا سکے-

چنانچہ موسیٰ نے جہاز تیار کروانے شروع کروا دئیے تھے-

یہ بات نہیں تھی کہ مسلمان جہاز چلانا یا بنانا نہیں جانتے تھے فقط اب تک ضرورت لاحق نہیں ہوئی تھی- چار جہاز تیار کئے جا رہے تھے جو کہ اس قدر بڑے تھے کہ ان میں سے ہر ایک میں دو ہزار آدمی اور اور ان کے کھانے پینے کا پندرہ بیس روز کا سامان با آسانی آ سکتا تھا- جنگ پر جانے کی ہر مسلمان کی تمنا اور خواہش تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنے آدمی بھیجے جائیں گے اور ان کا افسر کون ہو گا-

البتہ جہاد کے شائقین نے ابھی سے جہاد پر جانے کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دیں تھیں- جو لوگ تجربہ کار تھے اور متعدد لڑائیوں میں لشکر کی قیادت کر چکے تھے انہوں نے افسری کے لیے کہنا اور کوشش کرنا شروع کر دیں تھی ۔ عام لوگوں کا خیال تھا کہ موسیٰ اپنے بیٹے عبد العزیز کی سرکردگی میں یہ لشکر بھیجے گا لیکن موسیٰ چپ تھے اس لیے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا-

علاوہ ازیں جب سے مسلمانوں کو اندلس کے بادشاہ راڈرک کی عشرت پسندانہ زندگی کے واقعات کے بارے میں معلوم ہوا تھا وہ سب اس سے بہت ناخوش تھے اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد اسے اس کی بدکاری اور بو الہوسی کی سزا دیں-

مسلمان نہ خود بدکار تھے اور نہ دوسروں کو بدکار دیکھنا پسند کرتے تھے گویا وہ نیکو کاری کے ٹھیکیدار تھے اور چاہتے تھے کہ ساری دنیا انہی کی طرح نیک رہے- بدکاری اور بد امنی کا دنیا میں نام تک باقی نہ رہے- ایک روز موسیٰ دیوان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت ان کے پاس کئی معزز اشخاص مثلاً علی بن ربیع طمی ، حیات بن تمیمی ابن عبداللہ ایوب اور عبد العزیز وغیرہ بیٹھے تھے- یہ تمام وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی وقت لشکر کی قیادت کر چکے تھے، نیز نہایت مشہور اور شجاع لوگ تھے-

علی بن ربیع طمی نے دریافت کیا- آپ نے اس مہم کی افسری کے لیے بھی کوئی شخص تجویز کر لیا ہے؟ موسی نے جواب دیا ہاں، کر لیا ہے ممکن ہے کہ اس کا نام سن کر آپ سب بھی اس کی تائید کریں گے-

عبد العزیز :حضرت میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے

موسیٰ:خواب؟ کیا خواب دیکھا ہے تم نے؟ 

ابھی عبد العزیز نے اپنا خواب بیان کرنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ کونٹ جولین اور اشببلیا کا راہب دونوں آ گئے-

یہ دونوں قیروان ہی میں مقیم تھے اور اکثر موسیٰ کے پاس آتے رہتے تھے-

علیک سلیک کے بعد وہ بیٹھ گئے تب موسی نے عبد العزیز سے کہا- ہاں بیٹا تم اپنا خواب بیان کرو-

عبد العزیز: میں نے دیکھا کہ میں بحری سفر کر رہا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے آدمی ہیں- ہم سب ایک سر سبز پہاڑ پر جا کر اترے اور پہاڑ کو عبور کر کے بہشت زار میدانوں کو طے کرنے لگے- اس کے نواح میں ہزاروں لاکھوں چڑیاں تھیں جو ہمیں دیکھتے ہی اڑ جاتی تھیں- کبھی کبھی وہ ہمیں چونچیں بھی مارتی تھیں مگر جب ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ اڑ جاتیں تھیں- میدانوں کے بعد ہم نے آبادیاں بھی دیکھیں، وہ نہایت خوبصورت اور خوش نما تھیں- ایک جگہ ہم جب پہنچے تو ہمارے سامنے ایک چَوڑا دریا آ گیا- اس دریا پر ایک اونچا پل باندھا تھا جو نہایت شاندار اور مضبوط اور خوبصورت تھا- اس کے دروازے جن سے دریا بہہ رہا تھا، محرابدار اور اونچے اونچے تھے-

میں نے آج تک کسی پل کے اتنے اونچے دروازے نہیں دیکھے۔

ہم نے پل کے ذریعہ سے دریا کو عبور کیا اور خوش نما وادی میں جا اترے-

اس وادی میں بہت سے کھنڈر تھے اور ان کھنڈرات میں ایک پتھر کا بہت اونچا بت نصب تھا اتنا اونچا کہ اس کے نیچے کھڑے ہونے سے اس کا سر نظر نہیں آتا تھا- ہم سب اس بت کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ اس کی پشت کی طرف سے چند عورتیں آئیں- سب نہایت خوبصورت تھیں اور ریشمی پوشاکیں نیز سونے کے ایسے زیورات جن میں جواہرات جڑے ہوئے تھے پہنے ہوئے تھیں لیکن ان کے درمیان جو عورت تھی وہ ان سب سے زیادہ حسین اور خوبرو تھی نیز اس کی پوشاک بھی ان سب سے زیادہ بیش قیمت اور بھڑک دار تھی- اس کے زیورات آبدار موتیوں اور جواہرات کے تھے مگر وہ ایک طوق پہنے ہوئے تھی جس میں لعل و یاقوت جڑے ہوئے تھے-

اس کی چمک سے اس عورت کے رخسار دمک رہے تھے اور اس کا چہرہ چاند سے زیادہ جگمگا رہا تھا- اس عورت نے میری طرف دیکھا اور کچھ اشارہ کیا- میں اس کے پیچھے چل دیا-جب ہم سنگی بت سے زرا فاصلے پر پہنچ گئے تو وہ عورت اور اس کے ساتھ والیاں سب ہنسیں اور میں چونک پڑا- چونکتے ہی میری آنکھ کھل گئی-

موسی، راہب، کونٹ جولین نیز تمام لوگ خاموش بیٹھے حیرت بھری نظروں سے عبد العزیز کو دیکھ رہے تھے اور اس کا خواب سن رہے تھے-

جب وہ خاموش ہوا تو موسی نے کہا عجیب خواب دیکھا ہے تم نے-

جولین نے کہا ہاں عجیب خواب ہے زرا ایک بات تو بتائیں

عبد العزیز؟ کیا آپ کبھی اندلس گئے ہیں؟ 

عبد العزیز:کبھی نہیں گیا-

موسی:آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟ 

جولین:اس لیے کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اندلس کی سر زمین کے متعلق ہے-

موسی:کیا وہاں کے پہاڑ اور میدان سر سبز ہیں؟

جولین:جی ہاں حقیقت میں اندلس بہشت کا نمونہ ہے-

قدرت نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب اندلس کو بخش دی ہیں-وہ پھلوں کی بہتات اور آسمان کے صاف رہنے کے لحاظ سے ملک شام ہے-آب و ہوا کی عمدگی کے خیال سے یمن یا عرب کا نخلستان ہے-

میووں کی کثرت کی وجہ سے اور تازگی کے اعتبار سے حجاز ہے زرخیزی اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کے انداز سے ہندوستان ہے- بیش قیمت کانوں کے باعث کیٹے ہے-

نیز سمندر کے ساحلوں کی خوش قطع اور فائدہ رسانی میں عدن ہے-

موسی:آپ نے تو اس کی بڑی تعریف کر ڈالی ہے-

جولین:وہ ملک ہی تعریف کے قابل ہے مگر آپ کے صاحبزادے نے جو خواب دیکھا ہے، اس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے-

موسیٰ:کیوں؟ 

جولین: اس لیے کہ انہوں نے کبھی اندلس نہیں دیکھا مگر خواب میں اندلس پہنچ گئے جس بت کا انہوں نے بتایا ہے وہ مریڈا کے کھنڈرات میں ہے اور نہایت مشہور ہے-

اس کا نام گلیشا ہے دنیا بھر میں اتنا بڑا اور اچھا بت کہیں نہیں ہے-

موسی: اور وہ عورت؟ 

جولین: جس عورت کو انہوں نے خواب میں دیکھا وہ شاہ راڈرک کی بیوی نائیلہ ہے-اس کا طوق دنیا بھر میں بے نظیر ہے اور وہ حسین بھی ایسی ہے کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے سارے اندلس میں وہ طوق والی حسینہ کے نام سے مشہور ہے-

موسی: تعجب ہے میرے بیٹے خواب میں اندلس ہو آئے ہیں-

عبد العزیز: کیا آپ مجھے بیداری میں اندلس جانے کی اجازت دیں گے؟ 

موسی: نہیں میں نے اس مہم کے لیے اور ہی بہادر کو منتخب کر لیا ہے-

عبد العزیز: نے مایوسی سے کہا اور وہ کون ہے؟ 

موسی: جب دربار خلافت سے اجازت آ جائے گی تو اس وقت تمہیں اور سب مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا- اس وقت ایک خادم نے آ کر اطلاع دی حضور قاصد دمشق سے واپس آ گیا ہے سب یہ خبر سن کر خوش ہو گئے- موسی نے کہا جلدی سے اسے اندر بلاو- خادم واپس چلا گیا اور سب بے چینی سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے- جب قاصد کے آنے میں زرا دیر ہوئی تو ان لوگوں میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں-

جولین نے کہا کیا آپ کے خیال میں اعلی حضرت خلیفتہ المسلمین نے لشکر کشی کی اجازت دے دی ہو گی؟

موسی: میں صحیح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ایک مہم ہندوستان پر بھیجی جا رہی ہے اور وہ اشد ضروری ہے-

جولین: کیوں؟

موسی: اس لئے کہ سندھ کے مغرور و متکبر راجہ نے چند مسلمانوں کو قید کر لیا ہے- انہیں چھڑانے کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی ضروری ہو گئی ہے-

جولین: آپ مسلمانوں میں بڑا اتفاق و اتحاد ہے-

موسی: کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے" تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں-"

جب ایک بھائی پر مصیبت آئے تو یا اسے تکلیف ہو تو دوسرا بھائی اس سے متاثر نہ ہو گا؟ اور اگر مسلمان کسی مسلمان کو تکلیف اور پریشانی میں دیکھے گا تو اس کی مدد نہیں کرتا تو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ناخوش ہوتے ہیں-یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر ممکن امداد کرنے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں یگانگت اور بھائی چارہ ہے-

جولین: ٹھیک فرما رہے ہیں آپ جو محبت جو خلوص اور جو پیار مسلمانوں میں ہے وہ تمام دنیا میں کہیں بھی کسی قوم میں نہیں۔

اتنے میں قاصد اندر آ گیا-

اس نے بلند آواز میں کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ-

موسی نے و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا- وہ ایک طرف بیٹھ گیا- موسی نے دریافت کیا- کہو اعلی حضرت خلیفتہ المسلمین بخیریت ہیں؟ 

قاصد: جی ہاں اللہ کے فضل و کرم سے

موسی: اور دوسرے حکومت کے اکابرین ملت-

قاصد: سب خیریت سے ہیں اور سب نے سلام کہا ہے-

موسی: و علیکم السلام اور عام مسلمان؟ 

قاصد: وہ بھی اچھی طرح ہیں مگر ادنی مسلمانوں سے لے کر اعلی تک حتی کہ خلیفہ بھی ان مسلمانوں کی وجہ سے جنہیں ہندوستان کے مغرور راجہ داہر نے قید کر لیا ہے سخت پریشان اور بے قرار ہیں اور سب کی نگاہیں اس مہم پر لگی ہوئی ہیں جو کہ وہاں بھیجی جا رہی ہے-

موسی: اچھا میری عرض داشت کا جواب ملا؟ 

قاصد: جی ہاں-

موسی: لاؤ !

قاصد نے خلیفہ کا مراسلہ نکال کر پیش کیا- موسی نے لے کر اول اسے چوما اور پھر کهول کر پڑھا

منجانب ولید بن عبدالملک خلیفتہ المسلمین از دمشق بجانب موسیٰ بن نصیر وائسرائے بلاد مغرب

السلام علیکم و رحمت الله بعد از حمد و صلوٰۃ کے قلمی ہے کہ اسلام اور مسلمان دنیا سے فسق و فجور بدکاری بد امنی کو دور کرنے آئے ہیں اگرچہ ہندوستان کی مہم در پیش ہے مگر اس مہم کی وجہ سے کونٹ جولین کی مدد سے باز نہیں رہ سکتے- وہ مظلوم ہیں اور مظلوم کی حمایت کرنا مسلمان کا اولین فرض ہے- ہم اس مہم کا کلی اختیار تم کو دیتے ہیں تم نہایت ہوشیاری سے اسے شروع کرو-

یہاں تجربہ کار لوگوں کو اندلس بھیجو اور کسی ایسے افسر کا انتخاب کرو جو اس مہم کے لیے مناسب اور موزوں ہو- اول اول زیادہ لشکر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے-

تھوڑا سا لشکر بھیجو ضرورت لاحق ہو تو کچھ اور لشکر بھیج دینا-

فقط والسلام و رحمۃ اللہ. 

اس شاہی مراسلہ کو پڑھ کر اتنی مسرت موسی کو نہ ہوئی ہو گی جتنی یہ سن کر کونٹ جولین اور راہب کو ہوئی-

راہب نے کہا کہیے اب تو دربار خلافت سے بھی اجازت مل گئی ہے اب کیا ارادہ ہے آپ کا؟ 

موسی: مجھے صرف اسی کا انتظار تھا خلیفہ نے میری عرض داشت منظور کر لی ہے اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے پرسوں جمعہ کی نماز کے بعد ان شاءالله لشکر روانہ ہو جائے گا- راہب اور کونٹ جولین دونوں آداب کر کے اٹھ کر چلے.

موسی نے اسی روز سات ہزار آزمودہ کار اور شیر دل نوجوانوں کا انتخاب کر کے انہیں تیاری کا حکم دیا-

اندلس کی مہم پر جانے کے لیے ہزاروں آدمی تیار بیٹھے تھے- سب کا خیال تھا کہ کم سے کم پندرہ بیس ہزار لشکر تو بھیجا ہی جائے گا مگر ان کی حیرت اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی، جب انہوں نے دیکھا کہ صرف سات ہزار لشکر بھیجا جانا منظور ہوا ہے جو منتخب ہو گئے انہوں نے خوش ہو کر تیاریاں شروع کر دیں اور منتخب نہ ہوئے وہ ان کی خدمت کرنے لگے- صرف ایک ہی دن درمیان میں تھا-

آنکھ جھپکتے ہی وہ بھی گزر گیا اور جمعہ کا وہ روز  آ گیا جب اندلس پر جانے والا لشکر روانہ ہونے والا تھا- حسب معمول مسلمان غسل کر کے اور نئے کپڑے پہن کر مسجد کی طرف جانے لگے- نماز کے وقت سے بہت پہلے مسجد پر ہو گئی-وقت پر اذان ہوئی نماز ہوئی اور سنتوں وغیرہ سے فارغ ہو کر موسی مکبر پر آئے-انہیں دیکھتے ہی سب لوگ اس قدر خاموش ہو گئے کہ سانس لینے کی آواز صاف طور پر سنائی دینے لگی

موسی نے کہا مسلمانو قابل تعریف وہی ذات ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہے۔ جسے ہم دیکھتے ہیں اور وہ عالم جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے، وہ بنائے ہیں-

وہ خالق کل ہے اور قادر مطلق! نہ اسے نیند آتی ہے نہ تهکان محسوس ہوتی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔وہ ہمیشہ سے ہے اس وقت سے جب کوئی بھی نہ تھا اسی نے سب کچھ بنایا اور وہ ہمیشہ رہے گا، یعنی اس وقت بھی جب کہ تمام عالم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے-زمین پهٹ جائے گی اور آسمان ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا-

سیاروں کا وجود باقی نہ رہے گا وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم مسلمان اس کی عبادت کرتے ہیں- یاد رکھو صرف مسلمان ہی توحید کے حامل اور مبلغ ہیں اور اب قیامت تک توحید مسلمانوں ہی میں رہے گی- چونکہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اس لیے یہی شریعت یہی قرآن شریف اور یہی مزہب توحید کا علمبردار رہے گا- گزشتہ کتابوں یعنی توریت انجیل اور زبور وغیرہ میں بھی تحریفیں ہوتی رہیں- انسان ان میں ردو بدل کرتے رہے- قرآن مجید میں ایک نقطہ اور زیر زبر اور پیش کا بھی فرق نہیں آ سکے گا- یہ اس لیے کہ اللہ نے خود اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے-

اللہ رب العزت قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ: بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (سورۃ الحجر آیت نمبر ۹)

خیال کرو اللہ سے زیادہ حفاظت کرنے والا کون ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس میں ایک نقطے کا فرق نہیں آیا اور نہ آئندہ آ سکتا ہے- اس کے بعد قابل تعریف باعث تخلیق عالم فخر بنی آدم احمد مجتبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی ہے.  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزاروں صعوبتیں، لاکھوں تکلیفیں برداشت کیں اور دنیا کے سامنے بے ڈهڑک ہو کر اللہ کا پیغام پہنچا دیا- ہمیں فخر ہے کہ ہم اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ہیں جو اللہ کا لاڈلا ہے- فرشتوں کا حبیب ہے، دنیا والوں کا پیارا ہے-

ان پر درود سلام ایک بار نہیں ہزار بار نہیں لاکھوں بار ان گنت درود سلام-

اسلام کے بہادر فرزندو! دربار خلافت پر کونٹ جولین فریادی بن کر آئے ہیں- اعلی حضرت خلیفتہ المسلمین نے ان کی فریاد سن کر ان کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہے اور آج لشکر روانہ ہونے والا ہے جو اندلس سے بدکاری عیش پرستی بد امنی اور انسان پرستی مٹا دے گا- دعا کرو کہ پروردگار عالم مجاہدین کو فتح عطا فرمائے- تمام مسلمانوں نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خلوص اور سچے دل سے دعا مانگی-

اب موسی نے کہا: غالباً سب لوگوں کو اس بات کے معلوم کرنے کا اشتیاق ہو گا کہ اندلس جانے والے لشکر پر افسر یا سپہ سالار کس کو مقرر کیا جائے گا- میرے پاس سینکڑوں درخواستیں تحریری اور زبانی آئی ہیں- ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے یہ اعزاز حاصل ہو- اس میں میرا بیٹا عبد العزیز بھی ہے لیکن میں نے ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جو اس مہم کے لیے ہر طرح سے موزوں اور مناسب ہے-

 وہ ایک بربری غلام ہے لیکن میں نے اسے آزاد کر دیا ہے-

اس کا نام طارق ہے۔ 

طارق بربر کا رہنے والا تھا- جب مسلمانوں نے بربر پر لشکر کشی کی تو وہ اپنے ملک کی حفاظت میں نہایت شجاعت و بسالت سے لڑا اور لڑتے لڑتے گرفتار ہو گیا،چونکہ جو لوگ لڑائی میں گرفتار ہوتے ہیں وہ غلام بنا لئے جاتے ہیں، اس لیے طارق بھی غلام بن گیا اور موسی کے پاس رہنے لگا، 

مسلمانوں کی ہم نشینی نے اسے مسلمان ہونے پر برانگنختہ کر دیا اور وہ مسلمان ہو گیا- موسی نے اسے فورا آزاد کر کے مراکش کا گورنر بنا دیا- دنیا کی کوئی قوم بھی ایسے ایثار ایسی مساوات کا مظاہرہ نہیں کرتی کہ ادنیٰ درجہ کے شخص کو جو اچھوت تھا مسلمان ہوتے ہی جلیل القدر عہدہ دے دیا گیا ہو- ہندوستان میں تو اچھوتوں کی یہ حالت زار ہے کہ مجال نہیں وہ کسی مندر شوالہ اور دهارمک عمارت میں چلے جائیں

یہ سات ہزار کا لشکر جس کا سپہ سالار طارق بن زیاد تھا اور اس کے دست راست طریف بن مالک اور مغیث کی سر کردگی میں  روانہ ہوا اور ساحل سمندر کے کنارے واقع ایک شہر جس کا نام سبتہ تھا پہنچ گیا۔ وہاں پر امیر بحر عبداللہ  اپنے بہری بیڑے کے ساتھ اس لشکر کے انتظار میں  کھڑا تھا ۔کاونٹ جولین لشکر کو دوسرے کنارہ تک پنچانے کے لیے ساتھ ہو لیا۔ سبتہ شہر کا حکمران ایک عیسائی تھا جو کے مسلمانوں  کی عملداری میں  تھا۔  لشکر  سبتہ پہنچ کر بحری بیڑے  میں  سوار ہوا ۔اور ہسپانیہ کیطرف روانہ ہوا۔ دوسری کنارہ پر پہنچ کر سمندر میں  جہاں تک بحری بیڑا جا سکتا تھا پہنچ گیا ۔جب طارق بن زیاد نے دیکھا کہ آگے بڑھنا نا ممکن ہو گیا تھا، چنانچہ لنگر ڈال دیا گیا اور جہاز معمولی جھٹکے کے ساتھ رک گئے-کشتیاں نکال نکال کر سمندر میں ڈال دی گئیں اور سب سے پہلے ان میں سامان بار کیا جانے لگا- جولین نے کہا ہم آپ کی رہنمائی کے لیے یہاں تک آئے ہیں اب ہم رخصت ہونا چاہتے ہیں-

طارق:اب آپ کہاں جائے گا؟

جولین: سیوطا-

طارق: بہت اچھا لیکن ہاں ایک بات-

جولین: جی فرمائیے! 

طارق: ہم اس ملک کے راستوں سے بالکل نا واقف ہیں اگر کوئی رہبر مل جاتا تو اچھا ہوتا

جولین: افسوس ہے کہ ایسا کوئی آدمی میرے علم میں نہیں ہے-

طارق: خیر اللہ مالک ہے-

جولین: ان پہاڑوں سے گزر کر آپ کھلے ہوئے میدان میں پہنچیں گے، سیدھے راستے بڑھتے چلے جائیے-اندلس کے دارالسلطنت ٹولیڈو (طلیطلہ) میں پہنچ جائیں گے- کسی رہبر کی ضرورت نہیں ہے-

طارق:اللہ خود ہی راستہ نکال دے گا-

جولین: ایک بات اور سن لیجیے-

طارق: کہیے

جولین: جزیرہ سبز سے جو راستہ اندلس کو گیا ہے وہاں شاہ راڈرک کا مشہور سپہ سالار تدمیر کچھ لشکر لے کر ٹھہرا ہوا ہے- ذرا ہوشیار رہے گا کہیں وہ آپ کو غافل پا کر حملہ نہ کر دے-

طارق: کیا وہ سرحد کی حفاظت پر مامور ہے؟

جولین: نہیں بلکہ وہ اتفاق سے اس طرف آیا ہوا ہے-

طارق: اس کا لشکر کتنا ہے؟

جولین: مجھے صحیح تعداد تو معلوم نہیں ہے-

طارق: اور تعداد معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے-

جب اس ملک میں آ گئے ہیں تو پھر جتنی مرضی تعداد میں لشکر آ جائے مقابلہ پر موت یا فتح دونوں میں ایک حاصل کرنا ہے-

جولین: اللہ آپ کو فتح دے، میرے سینے میں جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اسی وقت بجھ سکتی ہے جب آپ فتح یاب ہوں اور وہ وسیہ کا راڈرک مار ڈالا جائے-

طارق: اطمینان رکھئیے اللہ ہر ظالم کو سزا دیتا ہے-

جولین: مجھے بھی یہی توقع ہے میری بیٹی بے عزتی کے غم میں گھل گهل کر مر رہی ہے-

طارق: اسے تسلی دیجئے!

جولین: آپ کے لشکر کا حال جان کر اسے خود ہی تسلی ہو جائے گی- اچھا اب رخصت ہونا چاہتا ہوں-

طارق: اللہ حافظ-

جولین: دیکھئے تدمیر ایک چالاک اور تجربہ کار آدمی ہے اس سے ہوشیار رہیے گا-

طارق: ہمارا تو اللہ پاک پر بھروسہ ہے اور وہی ہمارا معاون مددگار ہے-

جولین: خدا آپ کی مدد کرے-

وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر اپنے جہاز پر چلا گیا-اس عرصے میں تمام سامان کشتیوں کے ذریعے ساحل پر پہنچا دیا گیا تھا اب شیر دل سپاہی ساحل پر جا رہے تھے جب تمام لشکر ساحل پر پہنچ گیا، تب طارق اور مغیث الرومی بھی کشتی پر بیٹھ کر کنارے پر جا پہنچے-

یہاں پہنچتے ہی طارق نے کہا- مسلمانوں اللہ وحدہ لا شریک بلند و بالا کی مہربانی سے ہم اندلس کے سر سبز ساحل پر پہنچ گئے ہیں-تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں کی مدد اللہ کرتا ہے اور ان شاءالله ہم اس کی مدد سے پورے اندلس پر قابض ہو جائیں گے-رات جب میں سو رہا تھا تو سرکار دو عالم فخر مدینہ سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں تشریف لائے اور مجھے اندلس کی فتح کی بشارت دی-جیسا کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں ایسا ہی فتح اندلس پر بھی یقین ہو گیا ہے مگر میں کسی پر جبر نہیں کرنا چاہتا-سوچ لو کہ یہ مہم معمولی نہیں ہے، اس ملک کے چپہ چپہ پر ٹڈی دل عیسائی بکھرے ہوئے ہیں-ہم راستوں سے نا واقف ہیں پیدل ہیں اور بے سروسامان ہیں، نیز تعداد میں بھی بہت کم ہیں ہم کو زیادہ محنت مشقت کرنا پڑے گی-اس لیے میں ان کو جو واپس جانا چاہتے ہیں خوشی سے واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں شوق سے واپس چلے جائیں بتایئں کتنے لوگ واپس جانا چاہتے ہیں؟

تمام مسلمان چپ رہے ایک بھی نہ بولا سب خاموش رہے طارق نے کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی واپس نہیں جانا چاہتا 

ہر طرف سے آوازیں آئیں- ہرگز نہیں، ہم میں سے ایک بھی واپس نہیں جائے گا-

طارق: پھر سوچ لیجیے-

سب نے کہا خوب سوچ لیا ہے ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کی آرزو شہادت کے سوا کیا ہو سکتی ہے! 

طارق: یہی بات ہو سکتی ہے-اچها! جب آپ میں سے کوئی بھی واپس نہیں جانا چاہتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جہاز بے کار ہیں-

ایک شخص:ہاں بالکل بے کار ہیں-

طارق: پھر بے کار کیوں رہنے دیا جائے؟ 

مغیث: اور کیا ارادہ ہے آپ کا؟ 

طارق: میں ان جہازوں کو آگ لگوانا چاہتا ہوں-

سب نے کہا ہاں جب یہ بے کار ہیں تو ضرور انہیں جلا دیجئے-

طارق: اچھا تو تم جہازوں اور کشتیوں کو جلا دو-

کئی آدمی بڑھے اور انہوں نے کشتیاں، جہازوں میں ڈال کر جہازوں کو آگ لگا دی گئی اور تمام مسلمان ساحل پر کھڑے ہو کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھنے لگے- ممکن ہے کہ موجودہ دور کے لوگ کہیں کہ طارق نے غلطی کی کہ انہوں نے ان کے جہازوں کو جن کے ذریعے سے واپس جانا ممکن تھا، جلا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس کاروائی سے مسلمانوں کے دلوں میں جوش و امنگ کا دریا امڈ آیا تھا اور ہر مجاہد نے تہیہ کر لیا کہ وہ شہید ہو جائے گا یا فتح حاصل کرے گا-

واپسی کا خیال تک دل میں نہیں آنے دے گا- مسلمان جزیرہ و خضر پر پانچویں رجب ۹۳ ہجری سہ شنبہ کے روز وہاں پہنچے تھے-تھوڑے ہی عرصے میں تمام جہاز جل کر سمندر کی تہہ میں بیٹھ گئے-طارق نے کہا- مسلمانوں تمہاری واپسی کا اب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا ہے- اب صرف دو ہی باتیں ہیں یا تو شہید ہو جاو یا ملک فتح کرو-  سب نے کہا ان شاءالله ہم اندلس فتح کر کے ہی رہیں گے-

طارق: جب انسان کسی نیک کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی مدد کرتی ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے-

سب نے کہا ان شاءالله!

طارق: اچھا اللہ کا نام لے کر بڑھو-

فتح اللہ کی طرف سے ہے اور وہ قریب ہے

سب نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا- اس پر ہیبت نعرہ سے تمام پہاڑ اور ساحل سارا گونج اٹھا، اگرچہ اس جگہ کا نام لائنز

راک یا قلعہ الاسد تھا مگر جب سے طارق اس جگہ آئے اس وقت سے اس کا نام جبل الطارق مشہور ہو گیا اور آج بھی دنیا اسے جبل طارق کے نام سے پکارتی ہے-

اب یہ لوگ آگے بڑھے اور پہاڑ کو طے کرنے لگے- تمام پہاڑ نہایت سر سبز و شاداب تھے- طرح طرح کے چھوٹے بڑے درخت قسم قسم کے خوش رنگ اور خوشبو دار پھلوں کے پودے اور نئی نئی وضع کی گھاس تھی جس کی طرف بھی نظر جاتی تھی، گل پوش اور سبزہ زار چٹانیں نظر آتی تھیں-اس جاذب نظر اور فرحت افزا پہاڑ کو عبور کر کے یہ لوگ دوسری طرف اس کے دامن میں اترنے لگے-ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ ایک شخص زرد رنگ کا ریشمی جبہ پہنے ملا وہ کچھ پریشان و مضطرب اور بے قرار تھا-

طارق نے اسے دیکھا- انہوں نے مغیث الرومی سے کہا-یہ شخص عیسائی نہیں معلوم ہوتا-

مغیث: میرا بھی یہی خیال ہے-

طارق: اسے بلوائیں اور دریافت کریں کون کون ہے اور یہاں کیوں پھر رہا ہے-

مغیث:بہتر ہے-

اسے بلوائیں اور پوچھیں کہ کون ہے؟

انہوں نے ایک سپاہی کو اسے بلانے کے لیے بھیجا-سپاہی گیا اور اسے بلا لایا- اس نے آتے ہی طارق کو سلام کیا-

طارق نے دریافت کیا۔تم تنہا یہاں کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا میں آپ کی تلاش میں تھا-طارق نے حیران ہو کر پوچھا ہماری تلاش میں؟ 

وہ شخص: جی ہاں! 

طارق: گویا تمہیں ہمارے آنے کی توقع تھی؟ 

وہ شخص: جی ہاں-

طارق: گویا تمہیں ہمارے آنے کی توقع تھی؟ 

وہ شخص: مجھے بتایا گیا تھا!

طارق: کس نے بتایا تھا؟

وہ شخص:میں سب کچھ عرض کرتا ہوں- میں مظلوم ہوں ظالم عیسائیوں کا ستایا ہوا ہوں کیا آپ میری داستان سنے گے؟

طارق: ضرور سنو گا ہم مظلوموں کے حامی ہیں-

وہ شخص: آپ میری داد رسی کریں گے؟

طارق: ان شاءالله اچھا تم اپنی داستان سناو؟

وہ شخص: بہتر ہے-

طارق مغیث الرومی کھڑے ہوئے ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔

 یہ زرد پوش اڈهیڑ عمر کا آدمی تھا- خوش رنگ اور بیش قیمت پوشاک پہنے تھا- اس کے گلے میں جواہرات کا نہایت قیمتی ہار پڑا تھا- اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہا میں ایک بد بخت یہودی ہوں- میرا نام امامن ہے- قرطبہ کا رہنے والا ہوں جواہرات کی تجارت کرتا ہوں میں عرصہ سے یہاں مقیم ہوں اور تمام ملک میں میری ساکھ ہے، عزت ہے-

اللہ کی دی ہوئی دولت بھی کافی ہے مگر اس ملک کا قانون نرالا ہے-کوئی آئین نہیں ہے کوئی ضابطہ نہیں ہے-حکام جس کے پاس دولت دیکھتے ہیں لوٹ لیتے ہیں جس کی بیوی حسین یا لڑکی دیکھتے ہیں تو اسے چھین لیتے ہیں-

طارق نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا شاید تمہاری دولت چھین لی گئی ہے-

امامن: جی نہیں دولت چھین لیتے تو مجھے اتنا رنج نہ ہوتا-

طارق: تو کیا بیوی لے اڑا ہے؟ 

امامن: عرصہ ہو گیا میری بیوی کو فوت ہوئے-

طارق: اچھا تو پھر بیٹی کو چھین لیا ہے؟ 

امامن نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا-جی ہاں میری مرحومہ بیوی کی نشانی میری نور نظر میرے دل کا چین میرے کلیجے کے ٹکڑے کو چھین لیا ہے- یہ کہتے ہوئے امان کا دل بھر آیا، آنکھوں میں آنسو چھلک آئے-

طارق مغیث اور دوسرے لوگوں کو بڑا افسوس ہوا-

طارق نے کہا- امامن غم نہ کر- ان شاءالله تمہاری بیٹی کو واپس لا کر تمہارے دل کو ٹھنڈا کیا جائے گا-

امامن: مجھے آپ کی ذات سے یہی امید ہے-

طارق: کون لے گیا ہے آپ کی بیٹی کو؟ 

امامن: حضور جب سے راڈرک اس ملک کا بادشاہ بنا ہے تب سے لوگوں کے جذبات جان و مال اور آبرو خطرہ میں پڑ گئے ہیں- وہ اس درجہ سیہ کار ہے کہ اس نے ان لڑکیوں کی بھی آبرو ریزی کرنا شروع کر دی ہے جو بادشاہ بیگم کے پاس تہزیب و تربیت حاصل کرنے کے لیے آتی ہیں-ایک لڑکی فلورنڈا کو جو کونٹ جولین کی بیٹی ہے ہوس کاری کی بھینٹ چڑھا گیا ہے-

طارق: ہم کو معلوم ہے!

امامن: اس نے ملک میں کچھ عورتیں اور لوگ چھوڑ دئیے ہیں وہ جس عورت یا لڑکی کو حسین دیکھتے ہیں لالچ دے کر اور ڈرا دھمکا کر لے جاتے ہیں-

طارق: رازرک کی عمر کیا ہے؟

امامن: بڈھا ہے حضور بڑھاپے میں خبیث کو سیہ کاری کی سوجھی ہے-

طارق: لیکن لوگ اسے سمجھاتے کیوں نہیں-

امامن: حضور ہم یہودیوں کی حالت قابل رحم ہے سب سے زیادہ ہم تیر ستم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں دولت ہماری لوٹی جا رہی ہے ہماری عزت پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے-

طارق: مگر وہ تباہی اور بربادی کے ساتھ کھیل رہا ہے-

امامن: اللہ کرے کہ وہ کہیں جلد غارت ہو-

طارق: اللہ کی گرفت سخت ہے وہ ہر بدکار قوم کو تباہ کر دیتا ہے-

امامن: ہم یہودیوں کا بھی یہی ایمان ہے-

طارق: تم نے یہ نہیں بتایا کہ تمہاری لڑکی کو کون لے گیا ہے-

امامن: شاہ رازرک کا ایک معتمد خاص لے گیا ہے، میں اس کا نام نہیں جانتا-

طارق: کیا بہکا کر لے گیا ہے-

امامن: نہیں حضور میرے سامنے اور میرے آدمیوں کی موجودگی میں زبردستی لے گیا- آہ جس وقت اسے لے جایا جا رہا تھا، وہ رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی، اس کی معصومانہ نگاہیں کہہ رہی تھیں کہ اس کی امداد کروں اور اسے ان درندوں سے بچاوں-امامن کا دل بھر آیا-آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے نیز اس کا گلا رندھ گیا-

طارق نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:

غم نہ کر امامن!  دیکھو جب انسان زیادہ غمگین زیادہ پریشان اور زیادہ متفکر رہتا ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا اور تم کو اپنی لڑکی کی رہائی دلانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے-اپنے دل میں جوش انتقام پیدا کرو اور ظالموں سے انتقام لو-

امامن: ضرور لوں گا۔ انتقام لینے کے لیے تو میں نے اسی وقت قسم کھائی تھی جب وہ وحشی میری قرتہ العین کو میری آنکھوں کے سامنے لے گئے تھے-

طارق: مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری دل گداز داستان سننے کی فرمائش کر کے تمہارے دل کو دکھانے کا باعث بنا-

امامن:اگرچہ اس روح فرسا داستان کو سناتے ہوئے مجھ پر غم و اندوہ کا غلبہ تھا مگر اس سے میرے غم کا کچھ بار بھی ہلکا ہو جاتا ہے اور میرے محترم آپ کو تو میں خود اپنی درد انگیز داستان سنانا چاہتا تھا تا کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ عیسائی کیا بن گئے ہیں-

طارق: تمہاری داستاں سن کر ہمارے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں

امامن :جو انسان انسانیت رکھتے ہیں ضرور ان پر اثر ہوتا ہے۔۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ جب بھیڑیوں نے میری بیٹی کو پکڑا اس نے میری طرف دیکھا تو میں ضبط نہ کر سکا اور پارہ دل کو چھڑانے کو آگے بڑھا، مگر ان میں سے دو خونخوار انسانوں نے مجھے پکڑ کر اس زور دھکا دیا کہ میں گر پڑا اور گرتے وقت میرا سر دروازہ کے سنگ بازو سے ٹکرایا اور میں بے ہوش ہو گیا۔۔۔۔طارق نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ بے درد انسان-

امامن: آہ انہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے- وہ بھیڑئیے ہیں بهیڑیئے بے رحم و سفاک اور خونخوار-

طارق: اللہ انہیں غارت کرے انہیں سزا دے گا۔

امامن:ہزاروں ستم زدہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہیں کوس رہے ہیں

طارق: اچھا جب تم کو ہوش آئے۔

امامن: جب میں ہوش میں آیا وہ اسے لے جا چکے تھے اور چونکہ میں بے ہوش ہوگیا تھا اور کوئی ان کو روک ٹوک کرنے والا نہیں تھا، اس لیے انہوں نے میری ساری دولت بھی لوٹ لی اور چلے گئے مگر مجھے دولت کی پرواہ نہیں جو کچھ بھی میرے پاس تھا سب لے جاتے مگر میری بچی کو چھوڑ جاتے مگر وہ دولت بھی لے گئے اور میرے دل کے ٹکڑے کو بھی لے گئے، مجھ پر اس واقعہ کا ایسا اثر ہوا کہ میں نیم پاگل ہو گیا- ایک کمرے سے دوسرے میں دوسرے تیسرے میں بھاگا پھرنے لگا- دیر تک میری یہی حالت رہی یہاں تک کہ رات ہو گئی اور تهک کر چور ہو گیا نیند تو کیا آتی شاید ضعف طاری ہو گیا تھا یا پھر صدمہ کا اثر بھی باقی تھا جس کے سبب مجھے غش آ گیا- اسی عالم میں میں نے ایک سفید پوش بزرگ کو دیکھا جو کہ مجھے تسلی دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر تیری بیٹی محفوظ ہے اور اسے چھڑانے والے بھی آ گئے ہیں-

جزیرہ خضر میں جا! وہ تجھے وہاں ملیں گے-میں نے دریافت کیا- حضور میں انہیں کیسے پہنچانوں گا؟ انہوں نے جواب دیا - ان کی سفید اور سادہ پوشاک اور چوڑے چوڑے دامنوں سے پہچاننا- وہ سب عمامے باندھے ہوں گے ان کو دنیا مسلمان کے نام سے پکارتی ہے- سب کو اس سے یہ سن کر کمال کا تعجب ہوا لیکن تعجب کے ساتھ ساتھ ان سب کو اس بات کا بھی یقین ہو گیا کہ وہ ان شاءالله اندلس کی موجودہ حکومت کا تختہ الٹ دیں گے- امامن نے اپنی داستان جاری رکھتے ہوئے کہا- میں فورا اٹھ کھڑا ہوا صبح ہو گئی تھی میں نے مکان بند کیا اور آپ کی تلاش یہاں چلا آیا اللہ کا شکر ہے کہ آپ مل گئے-

طارق :اور یہ واقعہ کب کا ہے؟

امامن: ایک مہینے کا ذکر ہے حضور-

طارق:تمہاری لڑکی کا نام کیا ہے؟ 

امامن:بلقیس ہے حضور-

طارق:مگر یہودیوں میں تو ایسا نام نہیں رکھا جاتا-

امامن:حضور یہ بات بہت مشہور ہے کہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیوی نہایت حسین و جمیل تھی-

میری بیٹی بھی بہت حسین ہے اس لیے اس کا نام بلقیس رکھا تھا-

طارق: اچھا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ وہ بلقیس کو کہا لے کر گئے ہیں؟

امامن:حضور اتفاق سے ایک عیسائی مل گیا تھا اور وہ ان سپاہیوں میں سے تھا جو کہ اسے پکڑ کر لے گئے تھے-

اس سے میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ بلقیس تدمیر کے لشکر میں ہے-

طارق: اور تدمیر کہاں ہے؟

امامن: قریب ہی ہے شاید یہاں سے چار پانچ میل ہو گا-

طارق: پھر تو یہ مناسب ہو گا کہ ہم آج یہیں ٹھہریں اور صبح ہوتے ہی ان پر حملہ کر دیں-

امامن: حضور چونکہ میرے دل میں آتش انتقام بھڑک رہی ہے اس لیے میں تو یہی کہوں گا کہ اسی وقت ان بھیڑیوں پر حملہ کر دیں لیکن صحیح رائے یہی ہے کہ آج یہاں قیام کیجئے اور صبح ہوتے ہی حملہ کر دیجئے- مغیث الرومی اور دوسرے افسروں نے بھی یہی مشورہ یہی دیا-

چنانچہ اسی جگہ رات بسر کرنے کے ارادے سے اسی جگہ لشکر مقیم ہو گیا اور چونکہ مسلمان خیمے نہیں لائے تھے نہ گھوڑے اس لیے کھلے آسمان تلے ہی سایہ رات بسر کرنے کی ٹھان لی- رات کو انہوں نے کھانا تیار کر کے کھایا- امامن کو کھلایا اور عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے صبح بیدار ہوئے-

ضروریات سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وضو کیا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی گئی- جب وہ نماز پڑھتے تھے تو امامن ان کو حیرت سے دیکھ رہا تھا ان کی خدا ترسی کا اس کے دل پر گہرا اثر ہوا تھا- اس نے ایک ہی شب ان کے ساتھ رہ کر دیکھ لیا تھا کہ یہ لوگ فضول تکلفات اور بے ہودہ باتوں سے کوسوں دور ہیں- ان کا مشغلہ اللہ کی عبادت ہے خوش اخلاق ایسے ہیں کہ اس نے آج سے پہلے ایسے خوش خلق لوگ نہ دیکھے تھے- نماز پڑھتے ہی ہر مجاہد نے اپنا اپنا بستر اور تھوڑی تھوڑی رسد باندھ کر اپنی اپنی کمر سے لگائی اور نہایت اطمینان سے صف در صف کھڑے ہو کر روانہ ہو گئے- اگرچہ طارق لشکر کے سپہ سالار تھے اور ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا مگر وہ اپنا بستر کمر سے باندھے ہوئے تھا اور طارق اپنا- یہ مساوات دیکھ کر امامن کے دل پر گہرا اثر پڑا- 

اسلامی لشکر نہایت اطمینان اور استقلال سے چل پڑا اور اب ان کا ہر قدم جزیرہ سبز سے آگے بڑھنے لگا تھا- مسلمان خوب جانتے تھے اس جزیرہ کے اختتام پر تدمیر سے مقابلہ ہو گا- انہیں اس مقابلہ کی بڑی مسرت تھی اور فرط انبساط سے قدم بڑھائے چلے جا رہے تھے- ابھی آفتاب نصف النهار کے قریب بھی نہیں پہنچا تھا کہ جزیرہ سبز سے باہر نکل آئے-

انہوں نے کچھ ہی دور جا کر عیسائی لشکر کو دیکھا جو خیموں میں پڑا سو رہا تھا- انہیں مطلق خبر نہیں تھی کہ ان کی موت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے- مسلمانوں نے اس میدان میں جاتے ہی اللہ اکبر کے غلغلہ کا پر ذور نعرہ لگایا-

عیسائیوں نے اس نعرے کی آواز کو سنا اور گھبراتے ہوئے خیموں سے باہر آئے اور حیرت سے لشکر اسلام کو دیکھنے لگے

یہ لشکر تدمیر کا تھا خیموں میں دور تک چهولداریاں تھیں اور ان کے پیچھے گھوڑے بندھے ہوئے تھے- جو حیران کن متعجب نظروں سے وہ مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے اس سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ وہ انتہائی متعجب ہوئے ہیں- تدمیر جوان تھا اور نہایت چالاک تجربہ کار اور بہادر اس نے فوراً ہی اپنے لشکر کو مسلح ہو کر مجاہدین اسلام سے مقابلے کے لیے نکلنے کا حکم دیا- اندلس کے عیسائیوں نے اس سے پہلے کسی مسلمان کو نہیں دیکھا تھا اس لیے انہوں نے رہ رہ کر حیرت ہو رہی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آ گئے ہیں لیکن جب تدمیر نے انہیں مقابلے کا حکم دیا تو وہ فوراً اپنے خیموں میں گھسے اور تیار ہو کر اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر میدان جنگ میں نکلنے لگے- طارق نے فوراً ہی فوج کو صف بستہ شروع کر دیا ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس گھوڑے نہیں تھے وہ پیدل تھے نیز گھوڑا تو گھوڑا مجاہدین اسلام کے پاس ہتھیار بھی پورے نہیں تھے زرہ بگتروں کا تو جواز ہی کیا- اکثر لوگوں کے پاس نیزے اور تلواریں کچھ لوگوں کے پاس خالی تیر کمان اور کچھ خالی جڑی لاٹھیاں تھیں۔ طارق نے انہیں اس طرح صف بستہ کیا کہ اگلی صف میں ہر چار آدمی ایسے تھے جن کے پاس تلواریں اور نیزے تھے بیچ میں ایک کمان والے کو کھڑا کر دیا اور دوسری اور تیسری صفوں میں صرف تلوار اور نیزے والے تھے اور پانچویں صف میں تیر انداز کھڑے کئے ان کے پیچھے لاٹھیوں والے صف بستہ کئے جس وقت انہوں نے اس ترتیب سے شیران اسلام کی صف بندی کی تو اس وقت تدمیر بھی اپنے لشکر کو صف بستہ کر چکا تھا-

اس کے تمام سپاہی لوہے کی زرہ بکتر پہنے گھوڑوں پر سوار بڑی شان و شوکت سے کھڑے ہوئے تھے ان کے تیور بتا رہے تھے کہ وہ بےسروساماں مجاہدین کو حقیر اور ناتواں سمجھ رہے ہیں-

تدمیر اپنے لشکر کی صفوں سے باہر نکلا اور چند قدم آگے بڑھا کر بلند آواز میں پوچھنے لگا اے لوگوں کیا تم بتا سکتے ہو کہ تم کون ہو؟ چونکہ تدمیر نے اپنی زبان میں بات کی تھی اس لیے کوئی مسلمان اس کی بات کو نہ سمجھ سکا چنانچہ طارق نے امامن کو بلا کر دریافت کیا تم اسے جانتے ہو یہ کون ہے؟

جی ہاں یہ تدمیر ہے عیسائی لشکر کا سپہ سالار ہے۔

طارق: اس سے دریافت کرو کہ یہ کیا کہتا ہے طارق امامن کے ساتھ بڑھ کر صفوں سے باہر نکلا- تدمیر نے امامن کو دیکھا تو غضب میں آ کر کہا آو شیطان یہودی تو بھی ان کے ساتھ ہے تیری اس نازیبا حرکت سے پتہ چلا ہے کہ تم یہودی لوگ ان سے ملے ہوئے ہو تم ہی انہیں کہیں سے پکڑ کر ہمارے مقابلے کے لیے لائے ہو- امامن نے اطمینان و سنجیدگی سے جواب دیا ہم نہیں لائے بلکہ تمہاری قوم ہی انہیں تم پر حملہ کرنے کے لیے لائی ہے- تدمیر نے غصے سے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا کون ہے وہ بد بخت؟

امامن: کونٹ جولین اور سیوطا کا گورنر- امامن کو تمام واقعات معلوم ہو چکے تھے کیونکہ وہ یہودی تجارت کی غرض سے حجاز جاتے رہتے تھے۔

یہودی حجاز جاتے رہتے تھے اس لیے عربی زبان سے بھی خوب اچھی طرح واقف تھے- کونٹ جولین کا نام سن کر تدمیر چونک پڑا وہ کچھ سوچنے لگا- کچھ وقفہ کے بعد اس نے کہا- یہودی کتے تو مجھے فریب دیتا ہے- اس لشکر کے ساتھ تو ہے اور تو ہی انہیں کہیں سے چڑھا لایا ہے-

اب تک تیری قوم نے ہماری حکومت میں نہایت آرام اور بے فکری سے رہ کر خوب دولت کمائی مگر اب اس دشمنی کے صلے میں ایک یہودی کو بھی اندلس کی سر زمین میں زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا- تمہاری ساری دولت نیز تمہاری قوم کی تمام لڑکیوں کو تم سے چھین کر ملک بدر کر دیا جائے گا-

امامن نے زرا طیش بھرے انداز میں کہا- او مغرور انسان اگر تمہارے بس کی بات ہوئی تو تم ضرور کرو گے لیکن یاد رکھو کہ اللہ مظلوموں کا حامی ہے اور اس نے ان نیک دل اور اللہ ترس لوگوں کو ستم زدوں کی امداد کے لیے اس ملک میں بھیجا ہے- تدمیر نے حقارت سے قہقہہ لگا کر لوٹتے ہوئے کہا- اب تم دیکھنا اپنے حمایتیوں کا بھی انجام- امامن نے اسے روکتے ہوئے کہا- تدمیر ایک بات بتاؤ- تدمیر نے اس کی طرف گھومتے ہوئے کہا کیا؟  امامن نے غم زدہ لہجہ میں دریافت کیا- میری بیٹی کہاں ہے؟ تدمیر نے رعونیت و خشونت کے انداز میں جواب دیا- وہ میرے خاص خیمے میں موجود ہے- ہم نے اب تک اس کی عزت کی ہے اور اسے آرام سے رکھا ہے مگر اب اس کی انتہائی ذلت کی جائے گی اسے سخت تکلیفیں دی جائیں گی-

امامن: ہاں اگر تم زندہ رہے تو-

تدمیر لوٹ گیا اس نے کوئی جواب نہیں دیا-

طارق چونکہ اس کی زبان نہیں سمجھ رہے تھے اس لیے انہیں الجھن ہو رہی تھی اور اس کے باتیں معلوم کرنے کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا- جب تدمیر لوٹ گیا تب طارق نے امامن سے پوچھا- کیا گفتگو ہوئی ہے تمہارے درمیان؟ 

امامن نے تمام گفتگو سنا دی- طارق نے کہا- وہ مغرور ہے اسے اپنے لشکر اور لشکر کے سازو سامان پر غرور ہے لیکن نہیں جانتا کہ مسلمانوں کا حامی اللہ ہے اور اللہ ہر مغرور و متکبر کو سزا دیتا ہے ان شاءالله وہ اپنی آنکھوں سے اپنا انجام دیکھ لے گا-

امامن: حضور سب سے زیادہ مسرت کی بات یہ ہے کہ بلقیس بھی اس کے پاس ہی ہے، شاید اللہ اسے آزاد کرا دے

طارق: دعا مانگو اس میں سب کچھ قدرت ہے!

اس وقت عیسائی لشکر میں طبل جنگ بجا- طارق نے سمجھ لیا کہ اب مسیحی لشکر حملہ کرنا چاہتا ہے-اس نے کہا- مسلمانوں دشمن تم کو پیس ڈالنے کے لیے حملہ کر رہا ہے- یہ پہلی مہم ہے اگر تم نے استقلال اور دلیری سے جنگ کر کے اس میں کامیابی حاصل کر لی تو تمہاری دھاک تمام اندلس میں بیٹھ جائے گی- خوب سوچ لو کہ تمہارے سامنے غنیم ہے اور پیچھے سمندر ۔ بھاگ کر جان بچانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے- لڑو اور موت کی لڑائی لڑو قومی روایات کو زندہ اور برقرار رکھنے کے لیے لڑو اور غنیم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ڈال دو اور اس سارے میدان کو ان کی لاشوں سے بھر دو- اس مختصر تقریر کے سننے سے مسلمانوں میں جوش و غضب کا دریا امڈ آیا- وہ مارنے پر تیار ہو گئے-

عیسائی لشکر کے جهتے مسلمانوں کی طرف بڑھ رہے تھے-

نہایت ضبط و انتظام کے ساتھ ،ان کا خیال تھا کہ وہ گھوڑوں کے سموں سے مسلمانوں کو روند ڈالیں گے-

مسلمان بھی ان کے آنے کے شان سے ایسا ہی سمجھ رہے تھے مگر ان پر بالکل بھی ہراس طاری نہ تھا- وہ نہایت استقلال اور اطمینان سے کھڑے انہیں بڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے-

جب وہ زیادہ قریب آ گئے تب طارق نے رک رک کر تین نعرے لگائے- تیسرے نعرے کے باوجود مسلمانوں نے مل کر اللہ اکبر کا پر زور نعرہ لگایا- اس نعرہ کی پر ہیبت آواز تمام میدان میں گونج گئی- عیسائی حیران اور خوف زدہ ہو گئے مگر وہ رکے نہیں بلکہ برابر بڑھتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کے قریب پہنچ کر حملہ آور ہوئے- انہوں نے نہایت شدت سے حملہ کیا، اپنے پورے زور و قوت کے ساتھ مسلمانوں نے سد سکندری کی طرح ایک جگہ ہی قائم رہ کر ان کا مقابلہ کیا-

عیسائیوں نے تلواروں سے حملہ کیا-ان کی آبدار تلواریں سورج کی چمکتی ہوئی شعاعوں میں جگمگا رہی تھیں-

عیسائی مسلمانوں پر تلواروں سے حملے کر رہے تھے اور مسلمان نیزوں سے- فریقین جوش و طیش میں بھرے ہوئے تھے نہایت زور و قوت سے حملے کر رہے تھے-

ان کے نیزے قہر آلود سرعت سے اپنے کام میں مشغول تھے-

وہ زیادہ تر گھوڑوں کو نیزوں سے نشانہ بنا رہے تھے جس گھوڑے کے نیزہ لگتا تھا وہ گھبرا کر کھڑا ہو جاتا تھا اور جھرجھری لے کر سوار کو نیچے ڈال دیتا تھا جو سوار ایک دفعہ نیچے گر جاتا تھا اسے پھر اٹھنا نصیب نہ ہوتا تھا-

اول تو گھوڑوں کے سم ہی کچل ڈالتے تھے اور اگر کوئی سخت جان اٹھ کر کھڑا ہونے لگتا تھا تو مسلمانوں کے نیزے اسے چھید چھید کر گرا دیتے تھے- مسلمانوں نے عیسائیوں کی پہلی صف کا قریب قریب خاتمہ کر ہی ڈالا اور اب دوسری صف پر حملہ کر کے اسے بھی الٹنے کی کوشش کرنے لگے- عیسائی انہیں روند ڈالنا یا قتل کر دینا چاہتے تھے-

وہ غضب ناک ہو ہو کر حملے کر رہے تھے مگر ان کے بنائے کچھ نہیں بنتا تھا- وہ برہم ہو گئیں- مسلمان عیسائیوں میں اور عیسائی مسلمانوں میں گھس گئے نیز جو جہاں پہنچ گیا وہیں لڑنے لگا- اس وقت نہایت خون ریز جنگ شروع ہو گئی تھی- اب مسلمانوں نے بھی تلواریں کھینچ لی تھیں اور نہایت جوش و خروش سے حملے شروع کر دئیے تھے-

خون آلود تلواریں دور دور تک اٹھ اٹھ کر جھک رہی تھیں-

خون کے فوارے ابل رہے تھے- ہاتھ پیر سر اور دھڑ کٹ کٹ کر گر رہے تھے- مجروح چلا رہے تھے گھوڑے ہنہنا رہے تھے اور عیسائی غل مچا رہے رہے تھے-

ان کی آوازوں نے اس قدر شور پیدا کر دیا تھا کہ کان پڑی آواز تک سنائی دیتی تھی، چونکہ عیسائی شیران اسلام کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ تمام خیموں سے باہر نکل آئے تھے اور سب کے سب مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے-

گویا خیمے بالکل خالی رہ گئے تھے-

امامن ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا- وہ بلقیس کو چھڑانے کے لیے عیسائیوں کی نظروں سے بچتا ہوا خیموں کی طرف چلا- جب وہ میدان جنگ کے آخری کنارے پر پہنچا تو اسے ایک مسلمان کھڑا ہوا۔

اسے ایک مسلمان کھڑا ہوا ملا جو اپنے کپڑے نچوڑ رہا تھا-

ان کا نام اسماعیل تھا انہوں نے اتنے عیسائیوں کو قتل کیا تھا کہ ان کے دامن تک خون میں تر ہو رہے تھے- اسماعیل نوجوان اور شیر دل بہادر امامن ان کے قریب پہنچا- اس نے کہا-بہادر نوجوان کیا تم میری مدد کرو گے؟ اسماعیل نے کہا- ضرور مگر ابھی جنگ جاری ہے ذرا ٹھہر جاؤ میں ان ناقصوں کو اچھی طرح سے قتل کر لوں-

امامن: مگر میری مدد کا موقع یہی ہے

اسماعیل: کیا مدد چاہتے ہو تم؟ 

امامن: میری لڑکی تدمیر کے خیمے میں ہے جسے وہ زبردستی مجھ سے چھین کر لے گیا ہے،میں اسے آزاد کرانا چاہتا ہوں-

اسمٰعیل: ابھی زرا صبر و تحمل سے کام لو جنگ ختم کر لینے دو

امامن نے عاجزی سے کہا- یہی موقع ہے اللہ کے لیے میری مدد کرو تمہاری اولاد نہیں ہے اس لیے تم باپ کی محبت کا حال نہیں جانتے ۔دونوں چلے مگر زرا تیزی سے قدم بڑھا کر-

وہ عیسائیوں کے خیموں میں پہنچ گئے پھر اس خیمے پر پہنچے جو سب سے زیادہ شاندار تھا-دونوں خیمہ کے اندر گھس گئے انہوں نے دیکھا کہ بلقیس ریشم کے مضبوط ڈوروں سے بندھی ہوئی ایک کوچ پر پڑی تھی- امامن اسے دیکھتے ہی دوڑا اس نے کہا- آہ میری بیٹی! بلقیس نے اٹھنے کا ارادہ کیا مگر وہ ایسی بری طرح جکڑی ہوئی تھی نہ اٹھ سکی اس نے کہا- ابا جان اللہ کا شکر ہے- امامن جاتے ہی اس کے اوپر جھک گیا اور محبت پدری سے بے خود ہو کر اس کی پیشانی چومنے لگا- بلقیس حقیقت میں حسین-

اس کے چہرہ سے حسن کے انوار نکل رہے تھے- آنکھیں بڑی بڑی اور غضب کی رسیلی تھیں- چہرہ گول عارض گلاب کی پتیوں کی طرح سے سرخ و سفید تھے وہ حسن و جمال کی بے نظیر تصویر تھی- اسمٰعیل اسے دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے-

بلقیس نے کہا- ابا مجھے کھول دو بندشوں سے بڑی تکلیف ہو رہی ہے- امامن کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا جس سے  بند کاٹ ڈالتا-اس نے اسمٰعیل کی جانب دیکھا اسمٰعیل رشک حور بلقیس کے نظارہ میں محو تھے! امامن نے کہا- رحم دل نوجوان اس کی بندش دور کر دو- اسمٰعیل چونکے وہ اگے بڑھے اور تلوار سے ڈوریں کاٹنا شروع کر دیں بلقیس نے اب تک اسمٰعیل کو نہیں دیکھا تھا- جونہی اس کی نظر ان پر پڑی تو وہ حیرت نیز محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی-

اسمٰعیل کے دل پراس کی اس ادائے دل ربائی کا اور بھی اثر ہونے لگا وہ اس کے شکریہ کا جواب تک نہیں دے سکا-

امامن نے کہا اب یہاں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں ہے لہذا آئیے اور جلدی سے نکل چلیں- بلقیس نے کہا ہاں چلئے ابا جان- اب یہ تینوں چلے اور خیمے سے باہر نکلے باہر نکلتے ہی انہیں تدمیر اور پچاس ساٹھ عیسائی باہر کھڑے ملے-

تدمیر نے انہیں دیکھتے ہی کہا-

اچھا تو تم اس پیکر جمال کو لے جانا چاہ  رہے ہو؟ 

یہ تینوں اتنے عیسائیوں کو دیکھ کر ٹهٹهکے اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگے-

جس وقت امامن اور اسمٰعیل عیسائیوں کے خیموں کی طرف چلے تھے اس وقت جنگ زور شور سے ہو رہی تھی-

ہر طرف تلواریں اٹھتی اور جھکتی نظر آ رہی تھیں-

خون کی پهوہاریں برس رہی تھیں سر کٹ کر گیندوں کی طرح سے اچھل رہے تھے اور زمین پر گر رہے تھے-

اس وقت مسلمان اور عیسائی دونوں اپنی اپنی ہستیوں کو بھولے ہوئے تھے اور نہایت جوش نیز بڑے غیظ و غضب سے بھرے ہوئے لڑ رہے تھے-

عیسائیوں کو یقین تھا کہ وہ مسلمانوں کو یا تو مار ڈالیں گے یا پسپا کر دیں گے مگر اس سے پہلے ان کا کبھی مسلمانوں سے مقابلہ نہ ہوا تھا بلکہ مقابلہ تو درکنار انہوں نے کبھی ان کو دیکھا تک نہ تھا- اس سے پہلے وہ یہ سمجھ رہے تھے، بلکہ مار رہے تھے، جو عیسائی ان تلواروں کی زد میں آ جاتا ہے تها - وہ بہت جدوجہد کرنے کے باوجود بھی نہ بچتا موت اسے آ دباتی تھی- عیسائیوں کو اپنی کیفیت دیکھ دیکھ کر بہت طیش آ رہا تھا- وہ جوش و غیظ میں آ کر گھوڑوں کو ایڑیں لگا لگا کر جھپٹ جھپٹ کر حملے کر رہے تھے-

ان کی بے پناہ تلواریں اٹھتی تھیں اور بجلی کی طرح کوندتے ہوئے مسلمانوں کے سروں پر جھکتی تھیں لیکن مجاہدین نہایت اطمینان اور بڑی تجربہ کاری سے ان کو اپنی ڈھالوں پر روک لیتے تھے اور ان کے حملوں کو روکتے ہی خود بھی حملہ کر دیتے تھے- ان کا ہر حملہ ایسا جان لیوا ہوتا تھا کہ دس بیس عیسائیوں کو آن کی آن میں ختم کر دیتا تھا-

چونکہ محاذ جنگ دور تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے دور تک تلواروں کا کھیت آگا ہوا معلوم ہوتا تھا- جنگ دوپہر سے پہلے شروع ہوئی تھی اور اب دوپہر کو ڈھلے ہوئے کافی وقت ہو گیا تھا- جنگ ہنوز پورے زور و شور سے ہو رہی تھی- سرفروش بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے مسلمان جس جوش و جرات سے لڑ رہے تھے اس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جنگ ظہر کا وقت قضا ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے مگر عیسائی بھی کچھ موم کے بنے ہوئے نہ تھے وہ بھی نہایت دلیری اور بہادری سے لڑ رہے تھے-

مغیث الرومی دائیں طرف والے دستے کو سنبھالے تھے اور کمال جوش سے لڑ رہے تھے-

انہوں نے اس قدر عیسائیوں کو قتل کر ڈالا تھا کہ انہیں شمار ہی نہ کر سکے تھے اور اب بھی وہ تھکے نہیں تھے-

برابر اسی شد و مد سے حملے کر رہے تھے اور دشمنوں کو ہمہ تن مصروف نظر آ رہے تھے- ان کی خون آشام تلوار جس طرف جھکتی تھی اور جس کے سر پر پڑتی تھی اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتی تھی وہ ایک ہاتھ میں ڈھال اور دوسری ہاتھ تلوار لئے بڑی جان بازی سے لڑ رہے تھے عیسائی ان کو غصہ بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ کسی طرح سے انہیں مار ڈالیں مگر ان کے پاس جانے کی جرات نہ پڑتی تھی اور جو قسمت کا مارا ان کے پاس پہنچ بھی جاتا تو وہ قتل ہو کر گر پڑا تھا-

 جاری ہے۔