مجھے آج بھی یاد ہے کہ بہت کم عمری میں اور بلوغت سے بھی کافی پہلے ، ایک دن والدہ نے مجھے بٹھا کے سمجھایا تھا کہ یہ جتنی تمہاری چچا زاد، تایا زاد اور باقی کزنز ہیں ، یہ بھی تمہارے لیے ویسی ہی ہیں جیسی تمہاری اپنی سگی بہنیں۔ یہ بات انہوں نے اس حوالے سے کہی تھی کہ ہم کزنز ایک ساتھ کھیلتے تھے تو لڑائی بھی ہو جاتی تھی۔ ان کی یہ نصیحت ذہن میں بیٹھ گئی اور پھر ہمیشہ سب خواتین کزنز سے حیا ور احترام کا ویسا ہی رشتہ قائم رہا جو اپنی سگی بہنوں سے تھا۔ اس کے علاوہ بھی گاؤں میں رہنے والے بخوبی اس بات سے واقف ہوں گے کہ دیہات میں کسی کو بلاتے یا ملتے وقت اس سے کسی نہ کسی تعلق کا حوالہ بنا لیا جاتا ہے تاکہ اپنائیت محسوس ہو۔ اسی لیے کسی بھی بڑے کو چچا یا ماموں اور خاتون کو خالہ کہنا عام سی بات ہے۔ اس وجہ سے بھی گاؤں کی اکثر لڑکیاں خود بخود بہنیں بن جاتی ہے ۔ کوئی دوست کی بہن ہے تو کوئی بھائی کے دوست کی۔ کوئی بہن کی سہیلی ہے تو کوئی والدہ کی سہیلی یا والد صاحب کے دوست کی بیٹی وغیرہ۔ دیہاتوں میں اگرچہ اب یہ رجحان کچھ کم ہوا ہے لیکن ابھی بھی خاندانی لوگوں میں یہ رکھ رکھاؤ عام پایا جاتا ہے ۔یہ مثبت ذہن سازی کی ایک بہترین مثال ہے کہ انسان اپنی ہم عمر لڑکیوں پہ بری نظر ڈالنے سے بچا رہتا ہے۔ بات کچھ لمبی ہوگئی لیکن اس تمہید کا مقصد ، اس پوسٹ کے اصل نکتے سے متعارف کروانا تھا۔
اب آتے ہیں منفی ذہن سازی کی طرف ۔ فحش فلمیں ہمیشہ سے دیکھی جاتی رہی ہیں لیکن آج سے بیس سال پہلے تک ، ان فلموں تک رسائی مشکل تھی۔ اس لیے ان کے بد اثرات بھی کم تھے۔ جب سے سمارٹ فون اور تیز رفتار انٹرنیت ہماری پہنچ میں آیا ، یہ انسانیت دشمن فلمیں دندناتی ہوئی ہر گھر کے بیڈروم میں آن پہنچیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرم و حیا سے عاری مناظر بار بار دیکھنے سے ان کی کراہیت دلوں میں کم ہوتی چلی گئی۔ یعنی ہماری ذہن سازی ہوتی رہی اور ان فلموں کا دیکھنا ہمارے لیے ایک نارمل سا کام بن گیا۔ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان فلموں میں مرد عورت کے تعلق کو مختلف حوالوں سے غلاظت میں لپٹا دکھایا گیا جیسے استاد شاگرد، بہن بھائی، باپ بیٹی، ہمسائے کی لڑکی، بیٹے کی گرل فرینڈ، بیٹی کی سہیلی اور بہت سے دوسرے سماجی تعلقات۔ اب ان فلموں کو کثرت سے دیکھنے والا ، ذہنی طور پر اس بات کو قبول کرلیتا ہے کہ عورت یا لڑکی کسی بھی روپ میں ہو ، اس کا مقصد بس ایک وحشی مرد کی جنسی تسکین ہے۔ یہ ذہنیت بہت ہی خطرناک ہے اور اسی سوچ کی وجہ سے آج ہماری پانچ اور سات سال کی کم سِن بچیاں بھی درندگی سے محفوظ نہیں۔
ایک طرف تو ہمارے معاشرے میں ، دوست کی بہن یا چچا اور ماموں کے دوستوں کی بھانجیاں بھتییجیاں بھی ہمارے لیے محترم تھیں تو دوسری طرف آج معاشرے میں کئی جگہوں پر محرم تعلقات بھی اس سے متاثر ہونے لگے ہیں۔ جب میں نے نوفیپ گروپس میں کام شروع کیا تو چند لڑکوں نے انباکس میں آکر اعتراف کیا کہ ان کی اپنی سگی بہن پہ بری نظر ہے ۔ جی ہاں ! میں یہ بات اپنے پورے ہوش و حواس میں کہہ رہا ہوں۔ جب پہلی دفعہ میں نے ایک لڑکے کے منہ سے یہ بات سنی تو میرے پاؤں تلے سے بھی ایسے ہی زمین نکلی تھی جیسے یہ بات پڑھ کر آپ کو محسوس ہورہا ہے۔ لڑکے اس لت کا شکار ہورہے ہیں کہ وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ اپنی بہن کو ڈسکس کرسکیں۔ اس کو انسیسٹ ایڈیکشن کہا جاتا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ یہ زہر اور گندگی صرف اور صرف ، فحش فلموں کی لائی ہوئی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں کوئ ایسا ادارہ یا میڈیا چینل نہیں جو ایسی ترغیب دے رہا ہو۔ ویسے بھی یورپ اور مغربی ممالک سے ، شراب کے نشے میں دھت ہوکر محرم رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
میرے محترم بھائیو! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ یا آپ کا کوئی عزیز ، بیٹا ، بھائی اس غلاظت کی دلدل میں نہ گرے اور چار دیواری کا تقدس قائم رہے تو ان غلیظ فلموں سے شدید نفرت کیجیے۔ انہیں دیکھنا ، نارمل مت سمجھیے۔ یہ انسانوں کو وحشی درندے بنا رہی ہیں۔مسلمان مرد اپنی بیویوں کے ساتھ وہ سب کچھ کرنے لگے ہیں جو دکھایا جا رہا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم خود کو اس دلدل سے نکال لیں اور ایک پاکیزہ زندگی کا آغاز کریں۔
اللہ رب العزت ہم سب کو توبۃ النصوح نصیب فرمائے۔
0 Comments